Halloween Costume ideas 2015
October 2016

ہاروت اور ماروت کا قصہ

 نوٹ: اس واقعہ میں بہت اختلاف ہے۔ اس لئے میں نے تفسیر عزیزی کے حوالے سے یہ واقعہ نقل کردیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ زائد اس واقعہ میں لوگوں نے لکھا ہے۔ جس کی تصدیق بہت مشکل ہے۔ تفسیر عزیزی نے بحوالہ ابن جریر و حاکم اور دیگر تفاسیر نے حضرت ابن عباس و علی المرتضی وعبداللہ ابن مجاہد رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین سے روایت بیان کی ہے۔ کہ حضرت ادریس علیہ السلام کے زمانے میں لوگ بہت بد عمل ہو گئے تھے اور فرشتوں نے بارگاہِ الہیٰ میں عرض کی کہ انسان بہت بدکار ہے یہ تیری خلافت کے لائق نہیں ہے اس لیے انسان کو منصبِ خلافت سے ہٹا دیا جائے۔ اللہ پاک کا ارشاد ہوا کہ انسان میں غصہ اور شہوت ہے جس کی وجہ سے وہ زیادہ گناہ کرتا ہے اگر یہ چیزیں فرشتوں کو دے دی جائیں تو وہ بھی گناہگار ہو جائیں گے۔ فرشتوں نے کہا ہم تو کبھی بھی گناہ کے قریب نہ جائیں گے خواہ کتنا ہی غصہ اور شہوت ہو۔ حکمِ ربی ہوا کہ اچھا تم فرشتے اپنی جماعت میں سے کوئی سے دو فرشتے چن لو جو تمہارے خیال میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں پھر انھیں غصہ اور شہوت دے کر دنیا میں بھیجا جائے گا تاکہ انہیں آزمایا جا سکے۔ چنانچہ ہاروت اور ماروت جو بہت پرہیزگار فرشتے تھے منتخب ہو گئے اور انہیں غصہ اور شہوت دے کر شہرِ بابل میں اتار دیا گیا۔ اور کہا گیا کہ تم دونوں قاضی بن کر لوگوں کے درمیان فیصلے کیا کرو اور شام کو اسمِ اعظم کے ذریعے واپس آسمان پر آ جایا کرو۔ یہ دونوں قریب ایک ماہ تک اسی طرح آتے جاتے رہے اس عرصے میں ان کے عدل و انصاف کا چرچا عام ہو گیا اور بہت سے مقدمے ان کے پاس آنا شروع ہو گئے۔ ایک روز ملکِ فارس کی ایک حسین و جمیل عورت زہرہ نامی نے اپنے شوہر کے خلاف مقدمہ دائر کیا، یہ دونوں اُسے دیکھتے ہی اُس پر عاشق ہو گئے اور اُس کے ساتھ بدعملی کی خواہش کی۔ اس عورت نے کہا کہ میرا اور تمھارا دین الگ الگ ہے اور میرا شوہر بہت غیرت مند ہے اگر اسے پتہ چلا تو وہ مجھے قتل کر دے گا اس لیے اگر تم اپنی خواہش پوری کرنا چاہتے ہو تو پہلے میرے شوہر کو قتل کرنا ہو گا اور جس بت کی میں پوجا کرتی ہوں اسے سجدہ کرنا ہو گا۔ اس عورت کی شرائط سن کر دونوں نے انکار کر دیا۔ وہ عورت تو واپس چلی گئی لیکن ان دونوں کے دل میں عشق کی آگ بھڑکا گئی۔ کچھ روز تو ان فرشتوں نے برداشت کیا لیکن ایک روز مجبور ہو کر اس عورت کو ملاقات کے لیے پیغام بھجوایا۔ اس نے فوراً ان دونوں کو ملنے کے لیے بلوا لیا۔ جب یہ دونوں وہاں پہنچے تو وہ خوب بناؤ سنگھار کر کے بیٹھی تھی۔ اس نے کہا کے مجھے پتہ چلا ہے کہ تم دونوں اسمِ اعظم جانتے ہو۔ تو اپنی خواہش کے حصول کے لیے یا تو مجھے اسمِ اعظم بتا دو، یا پھر اس بت کو سجدہ کرو یا میرے شوہر کو قتل کرو یا پھر شراب پی لو۔ دونوں فرشتوں نے سوچا کہ اسمِ اعظم تو اسرارِ الہیٰ ہے اسے فاش نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح بت کو سجدہ کرنا یا کسی کو قتل کرنا بھی کبیرہ گناہ ہے اس لیے چلو شراب لاؤ ہم شراب پی لیتے ہیں۔ جب وہ دونوں شراب پی کر مست ہو گئے تو اس عورت نے ان دونوں سے بت کو سجدہ بھی کروایا، اپنے شوہر کو قتل بھی کروا لیا اور اسمِ اعظم معلوم کر کے صورت بدل کر آسمان پر جا پہنچی اور حق تعالیٰ نے اس کی روح کو زہرہ ستارے سے متصل کر دیا۔ دوسری جانب جب ہاروت اور ماروت کو ہوش آیا تو وہ اسمِ اعظم بھول چکے تھے اور اپنے کیے پر نادم اور شرمندہ تھے۔ حق تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ انسان میری تجلی سے دور رہتا ہے لیکن یہ دونوں تو ہر شام حاضرِ بارگاہ ہوتے تھے پھر بھی شہوت سے مغلوب ہو کر گناہ کر بیٹھے۔ تو اگر انسان سے گناہ سرزد ہوتا ہے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ یہ سن کر تمام فرشتوں نے اپنی خطا کا اقرار کیا اور انسانوں پر لعن طعن کرنے کے بجائے ان کے لیے دعاء مغفرت کرنے لگے۔ اس کے بعد ہاروت اور ماروت حضرت ادریس علیہ السلام کی خدمت میں پیش ہوئے اور اللہ کے حضور معافی کی درخواست کی۔ آپ نے دونوں کے لیے دعاء مغفرت کی جس کے کئی روز بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب آیا کہ ان دونوں کو اختیار دیا گیا کہ چاہیں تو دنیاوی عذاب قبول کر لیں یا آخرت کا۔ انہوں نے سوچا کہ دنیا کا عذاب ایک نہ ایک دن ختم ہو جائے گا لیکن آخرت کا عذاب نہ ختم ہونے والا ہے اس لیے دونوں نے دنیاوی عذاب قبول کر لیا۔چنانچہ حق تعالیٰ نے حکم دیا کہ ان دونوں کو لوہے کی زنجیروں میں جکڑ کر بابل کے کنویں میں اوندھا لٹکا دیا جائے۔ اس کنویں میں آگ جل رہی ہے اور فرشتے باری باری ان پر کوڑے برساتے ہیں اور پیاس کی شدت سے ان کی زبانیں باہر کو لٹک رہی ہیں اور یہ عذاب ان پر قیامت تک یوں ہی شدید رہے گا۔ اور آخر کار ان کو نجات ملے گی ۔ 

تحریر٭مہرعلی٭ماچھیوال وہاڑی ..

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کا جسم مبارک تیار کیا تو فرشتوں نے ایک نئی شکل و صورت دیکھ کر تعجب کا اظہار کیا اور آپ کی خوبصورتی دیکھ کر بھی خوش ہوئے۔ شیطاں نے جو آپ کو دیکھا تو کہنے لگا، بھلا یہ کیوں پیدا کیا گیا؟ پھر فرشتوں سے کہنے لگا، اگر خدا نے اسے ہم پر ترجیح دے دی تو تم کیا کرو گے؟ فرشتوں نے کہا ہم اپنے رب کا حکم مانیں گے۔ شیطان نے اپنے جی میں کہا، بخدا اگر خدا نے اُسے مجھ پر ترجیح دے دی تو میں ہر گز خدا کا حکم نہیں مانوں گا۔ بلکہ اسے ہلاک کر دوں گا۔پھر شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام کے جسمِ اقدس پر تھوک دیا جو آپ کے مقامِ ناف پر پڑا۔خدا تعالیٰ نے حضرت جبریل کو حکم دیا کہ اتنی جگہ سے مٹی نکال دو۔ جبریل نے جہاں تھوک پڑی تھی اس جگہ سے تھوک سمیت مٹی نکال دی۔ خدا نے اس مٹی سے کتا پیدا فرمایا۔ کتے میں تین خصلتیں ہیں۔ اُسے آدمی سے اُنس ہے۔رات کو جاگتا ہے اور آدمی کو کاٹتا ہے۔ آدمی سے اسے انس اس لئے ہے کہ—مٹی حضرت آدم علیہ السلام کی ہے۔ رات کو جاگتا اس لئے ہے کہ ہاتھ جبریل کے لگے ہیں اور آدمی کو کاٹتا اس لئے ہے کہ تھوک شیطان کی ہے۔ (روح البیان ص۴۸ ج۱) سبق: اللہ کے مقبولوں اور محبوبوں کا شیطان ہمیشہ سے دشمن چلا آیا ہے۔ شیطان میں انانیت اور غرور بہت ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ اس کے سوا کسی اور میں بڑائی و عظمت تسلیم کی جائے۔ اسی اپنی انانیت کی وجہ سے وہ حضرت آدم علیہ السلام کا دلی دشمن بن گیا۔ اور آپ کےجسم اقدس پر تھوک کر اس نے بتا دیا کہ اللہ کے مقبولوں کے حق میں گستاخی و بے ادبی کرنا میرا شیوہ ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی پیدا فرمایا ہے وہ مبنی بر حکمت ہے۔ ہمیں یوں ہر گز نہ کہنا چاہئے کہ "بھلا یہ کیوں پیدا کیا گیا؟" بلکہ یوں کہنا چاہئے: ربنا ما خلقت ھذا باطلا​ یعنی اے رب ہمارے! تو نے یہ بیکار نہ بنایا۔​ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم بلا چون و چرا مان لینا فرشتوں کی سنت ہے اور اُس کے حکم کو حیل و حجت کر کے نہ ماننا شیطان کی خصلت ہے۔ لہٰذا ہمیں فرشتوں کی سنت کو اپنانا چاہئے نہ کہ شیطان کی خصلت کو...!!! ("شیطان کی حکایات

تحریر٭مہرعلی٭ماچھیوال وہاڑی


تاثیر دکھا تقریر نہ کر ( ایک خوبصورت واقعہ ) 

تمام وزیر میدان میں تیر اندازی کی مشق کر رہے تھے ۔سلطان غیاث الدین بھی ان کے ساتھ شریک تھا ۔ اچانک سلطان کا نشانہ خطا ہوگیا اور وہ تیر ایک بیوہ عورت کے بچے کو جا لگا۔ اس سے وہ مرگیا۔ سلطان کو پتہ نہ چل سکا۔ وہ عورت قاضی سلطان کی عدالت میں پہنچ گئی۔ قاضی سراج الدین مے عورت کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا: '' کیا بات ہے ؟ تم کیوں رو رہی ہو؟ " عورت نے روتے ہوئے سلطان کے خلاف شکایت لکھوائی، ''سلطان کے تیر سے میرابچہ ہلاک ہوگیا ہے.'' قاضی سراج الدین نے عورت کی بات پوری توجہ سے سنی اور پھر اسی وقت سلطان کے نام خط لکھا: ''آپ کے خلاف شکایت آئی ہے۔ فوراً عدالت میں حاضر ہو جائیں اور اپنے خلاف آنے والی شکایت کا جواب دیں.'' پھر یہ حکم عدالت کے ایک پیادے کو دے کر ہدایت کی: '' یہ حکم نامہ فوراً سلطان کے پاس لے جاؤ!" پیادے کو یہ حکم دے کر قاضی سراج الدین نے ایک کَوڑا نکالا اور اپنی گدی کے نیچے چھپا دیا۔ پیادہ جب سلطان کے محل میں پہنچا تو اس دیکھا کہ سلطان کو درباریوں نے گھیر رکھا ہے اور قاضی کا حکم نامی سلطان تک پہنچانا مشکل ہے۔ یہ دیکھ کر پیادہ نے اونچی آواز میں اذان دینا شروع کر دی۔ بے وقت اذان سن کر سلطان نے حکم دیا: ''اذان دینے والے کو میرے سامنے پیش کرو." پیادے کو سلطان کے سامنے پیش کیا گیا۔ سلطان نے گرج کر پوچھا: ''بے وقت اذان کیوں دے رہے تھے.'' '' قاضی سراج الدین نے آپ کو عدالت میں طلب کیا ہے آپ فوراً میرے ساتھ عدالت چلیں. '' پیادے نے قاضی صاحب کا حکم نامہ سلطان کو دیتے ہوئے کہا۔ سلطان فوراً اُٹھا۔ ایک چھوٹی سی تلوار اپنی آستین میں چھپالی ۔ پھر پیادے کے ساتھ عدالت پہنچا۔ قاضی صاحب نے بیٹھے بیٹھے مقتول کی ماں اور سلطان کے بیان باری باری سنے پھر فیصلہ سنایا: '' غلطی سے ہو جانے والے قتل کی وجہ سے سلطان پر کفارہ اور اس کی برادری پر خون کی دیت آئے گی ۔ ہاں اگر مقتول کی ماں مال کی کچھ مقدار پر راضی ہو جائے تو اس مال کے بدلے سلطان کو چھوڑا جا سکتا ہے ''۔ سلطان نے لڑکے کی ماں کو بہت سے مال پر راضی کر لیا پھر قاضی سے کہا : '' میں نے لڑکے کی ماں کو مال پر راضی کر لیا ہے '' قاضی نے عورت سے پوچھا : '' کیا آپ راضی ہو گئیں.'' '' جی ہاں میں راضی ہو گئی ہوں '' عورت نے قاضی کو جواب دیا ۔ اب قاضی اپنی جگہ سے سلطان کی تعظیم کے لئے اٹھے اور انھیں اپنی جگہ پر بٹھایا۔ سلطان نے بغل سے تلوار نکال کر قاضی سراج الدین کو دیکھاتے ہوئے کہا: '' اگر آپ میری ذرا سی بھی رعایت کرتے تو میں اس تلوار سے آپ کی گردن اڑا دیتا.'' قاضی نے بھی اپنی گدی کے نیچے سے کَوڑا نکال کر سلطان غیاث الدین کو دکھاتے ہوئے کہا: '' اور اگر آپ شریعت کا حکم ماننے سے ذرا بھی ہچکچاتے تو میں اس کَوڑے سے آپ کی خبر لیتا۔ بےشک یہ ہم دونوں کا امتحان تھا.'' ایسے بھی حکمران تھے اور ایسے عادل منصفین تھے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو ایسے عادل جج اور نیک حکمران عطا فرمائے ۔


تحریر٭مہر علی٭ماچھیوال وہاڑی

اسلام علیکم۔۔۔۔۔۔۔
اردو ایکسپریس پی کے کی جانب سے خوش آمدید۔
اردو بلاگرز کے کیے خوش خبری اب آپ اپنی     بلاگر ویب سائیٹ پراردو نستعلیق فانٹ میں بھی پوسٹس کر سکتے ہیں۔
گوگل فانٹس میں نوٹونستعلیق فانٹ کو شامل کیا جانا  ہمارے لیے کافی خوش آئند ہے لیکن یہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے
پھر بھی یہ کافی بہترین ہے۔کوئی تھوڑی بہت خامیاں تو ہیں لیکن ان کا کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے۔لہذا پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔یہ فانٹ دیکھنے میں کافی حد تک جمیل نوری نستعلیق کی طرح ہے ۔خیر باتیں تو ہوتی رہیں گی۔آئیے چلتے ہیں یہ 
فانٹ کی انسٹالیشن کی طرف۔کوشش کروں گا کہ آپ کو تفصیل سے سمجھاسکوں
تو آئیے شروع کرتے ہیں1
نمبر1۔۔سب سے پہلے اپنے بلاگراکاؤنٹ میں لاگ ان کریں۔ اس کے بعد بلاگر ڈیش بورڈنیچے دی گئی تصویر کی طرح نظر آئے گا۔تصویر میں دیے گئے طریقہ کار پر عمل کریں
نمبر2۔نیچے تصویرمیں دیے گئے طریقہ کار پر عمل کریں
نمبر3۔اس کے بعد نیچے دی گئی تصویر کی طرح کا پیج آئے گا
 اس پیج میں کہیں بھی کلک کریں۔
سرچ کریں<head>  بٹن دبائیں۔اورctrl+fاور اپنے کی بورڈ سے  
نیچے پیسٹ کریں<head> اب نیچے دیا گیا کوڈ کاپی کرکے ۔ 
  
  <link href='//fonts.googleapis.com/earlyaccess/notonastaliqurdudraft.css' rel='stylesheet'/>
کوڈپیسٹ کرنے کے بعد آپ کا پیج کچھ اس طرح ہونا چاہیے
سرچ کریں اور نیچے دیا گیا کوڈ اس سے اوپر پیسٹ کریں</style>اب 
 @import url(http://fonts.googleapis.com/earlyaccess/notonastaliqurdudraft.css);
کوڈ پیسٹ کرنے کے بعد یہ حصہ کچھ اس طرح ہونا چاہیے
   نمبر4۔
   سرچ کریں اور نیچے دیا گیا کوڈاس کے نیچے پیسٹ کردیں<b:skin>اب 
 body {
 font-family: 'Noto Nastaliq Urdu Draft', serif;
}
کوڈ پیسٹ کرنے کے بعد یہ اس طرح نظرآناچاہیے۔
نمبر5۔اب ٹیمپلیٹ کو سیو کردیں
دوستو فانٹ کی انسٹالیشن سے متعلق کوئی بھی مسئلہ آپ بلا جھجھک مجھ سے شیئر کرسکتے ہیں
اس کے علاوہ آپ کےبلاگر سے متعلق کو ئی بھی سوال پوچھنا چاہیں تو اردو ایسپریس پی کے فیس بک پیج پر میسج کریں
شکریہ۔۔۔۔
آپکا کا دوست۔۔
مجاہدحسین 
 

اپنے ارشدخان تو چھاگئے
اردوایکسپریس پی کے
آج کل سوشل میڈیا پر ہرطرف اسلام آباد کے چائےفروش ارشد خان کے چرچے ہیں۔ارشد خان کو سب سے زیادہ شہرت اس وقت ملی جب ان تصویر جس میں وہ چائے بناتے ہوئے نظر آتے ہیں،نے سوشل میڈیا پر پوسٹ ہوتے ہی دھوم مچا دی،ارشد خان جن کی خوبصورت گہری آنکھیں،گورارنگ گلابی ہونٹ جس نے بھی دیکھا وہ خان کا دیوانہ ہو گیا،ارشد خان کی تصاویر کو دو دن میں بیس لاکھ سے زائد افراد دیکھ چکے ہیں،اور یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے،چائے فروش ارشد خان کی یہ تصاویر نہ صرف پاکستان بلکہ ہمسائے ملک ہندوستان میں بھی کافی شہرت حاصل کر چکی ہیں،بلکہ اب تو ارشد خان کے چاہنے والے پوری دنیا سے سامنے آرہے ہیں،ارشد خان کی شہرت کا سفر یہیں پر ختم نہیں ہوا ،اسلام آباد میں خان کے ساتھ تصاویر بنوانے کیلیے لڑکیاں کثیر تعداد میں چائے کے ڈھابے پر جہاں وہ کام کرتا ہے پہنچ رہی ہیں،جبکہ خان صاحب اپنے ڈھابے سے غائب نظر آتا ہے،  ارشد خان کو اپنی شہرت کا اس وقت پتہ چلا جب اس دوستوں نے بتایا کہ وہ سوشل میڈیا سٹار بن چکا ہے،لالا کی خوبصورتی اور شہرت کو دیکھتے ہوئے بہت سی کمپنیاں  اپنے اشتہار میں کاسٹ کرنے کیلیے رابطے میں ہیں ،جبکہ ارشدخان کو مختلف ٹی وی شوزمیں انٹرویو کےلیے بھی مدعو کیا گیا ہے،آج صبح ۹۲ نیوز چینل پر انٹرویوکےلئےبلائے گئے ارشدخان میک اپ اور تھری پیس سوٹ میں ملبوس پہلی بارٹی وی شو میں نظر آئے،جس  میں اس کا نیا انداز دیکھنے لائق تھا،شو کے میزبان کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے ارشد خان کا کہناتھا کہ وہ اپنی شہرت پر بہت زیادہ خوش ہے ،اور اسے فلموں اور ڈراموں وغیرہ میں کام کرنے کی آفر ہوئی تو ضرورکرے گا،
تحریر،،،،مجاہد حسین
نیچے قارئین کی دلچسپی کےلیےارشد خان کے انٹریو کا کچھ حصہ حاضرِخدمت ہے
 

   بسمِ اللہِ الرَّحمنِ الرَّحِیم۫
ایک شخص رسول ﷺ کی خدمت میں حاضرہوا اور اپنے باپ کی شکایت کی کہ
یارسول اللہﷺمیرا باپ مجھ سے پوچھتا نہیں اور میرا سارا مال خرچ کر دیتا ہے
آپﷺنے ان کے والدِمحترم کو بلوایا،جب اس کے والد کو پتا چلاکہ اس کے بیٹے نے
آپﷺسے میری شکایت کی ہے تو دل میں بہت رنجیدہ ہوئے اورحضورﷺکی
خدمت میں حاضری کےلیے چلے ۔۔چونکہ عرب کی گھُٹی میں شاعری تھی تو
راستے میں کچہ اشعار ذہن میں کہتے ہوئے پہنچے۔
ادھر بارگاہِ رسالت میں پہنچنے سے پہلے حضرتِ جبرائیل آپﷺکی خدمت میں
حاضرہوئے اور فرمایا کہ۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان کا معاملہ بعد میں سنیے گا پہلے وہ اشعار
سنیں جو وہ سوچتے ہوئے آرہے ہیں۔جب وہ حاضرہوئے تو آپﷺ نے فرمایا کہ
آپ کا مسئلہ بعد میں سنا جائیگا پہلے وہ اشعارسنائیے جو آپ سوچتے ہوئے آئے ہیں
یہ سن کر وہ رونے لگے کہ،جواشعارابھی میری زبان سے ادا بھی نہیں ہوئے،میرے کانوں
نے ابھی نہیں سنے۔اللہ پاک نے وہ بھی سن لیے ہیں اور آپ کو بتا بھی دیا۔۔۔۔
آپﷺنے ارشادفرمایا کہ وہ کیا اشعارتھے ہمیں سنائیں۔۔۔۔۔
ان صحابی نے اشعار پڑھنا شروع کیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ کو ان کا آسان ترجمہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں،کیونکہ جو اشعار تھے اور جس اعلیٰ

پائے کے تھے اور جو جذبات کی کیفیت تھی،ان کی اردو میں ترجمانی مشکل ہے

                                 
 بہرحال اشعار کچھ اس طرح تھے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے میرے بیٹے۔۔۔

جس دن تو پیدا ہوا ٭٭
ہماری محنت کے دن تبھی سے شروع ہوگئے تھے۔
توروتا تھا ہم سو نہیں سکتے تھے۔۔۔
تو نیں کھاتا تو ہم کھا نہیں سکتے تھے۔۔
تو بیمار ہوجاتا تو تجھے لیے کبھی کسی طبیب کے پاس مارے مارے پھرتے تھے کہ تجھے

کہیں کچھ ہو نہ جائے۔۔
کہیں تو مر نہ جائے۔۔
حالانکہ موت الگ چیز ہے اور بیماری الگ چیز ہے۔۔۔
پھر تجھے گرمی سے بچانے کےلیے دن رات کام کرتا رہا کہ تجھے ٹھنڈی چھاؤں مل جائے۔
ٹھنڈسے بچانے کےلیے پتھر توڑے،تغاریاں اٹھائیں کہ میرے بچے کو ٹھنڈ مل جائے۔
جو کمایا تیرے لیے،جو بچایا تیرے لیے۔
تیری جوانی کے خواب دیکھنے کےلیے اتنی محنت کی کہ میری ہڈیاں تک کمزور ہوگئیں

ہیں ،اور تو کڑیل جوان بن گیا ہے۔۔۔
پھر مجھ پر خزاں نے ڈیرے ڈال لیے اور تجھ پر بہار آگئی۔
میں جھک گیا ،توسیدھا ہو گیا
اب میری خواہش پوری ہوئی کہ تو ہرا بھرا ہو گیا ہے،۔۔
چل اب زندگی کی آخری سانسیں تیری چھاؤں میں بیٹھ کر گزاروں گا،۔
مگریہ کیا تیری جوانی آتے ہی تیرے تیور بدل گئے،تیری آنکھیں ماتھے پرچڑھ گئیں
تو ایسے بات کرتا ہے کہ جیسے میراسینا پھاڑکر رکھ دیتا ہے،۔
توایسے بات کرتا ہے کہ کوئی غلام سے بھی ایسے بات نہیں کرتا،۔

پھر میں نے اپنی ساری زندگی کی محنت کو جھٹلا دیا کہ میں تیرا باپ نہیں نوکرہوں

نوکر کو بھی کوئی ایک وقت کی روٹی دے ہی دیتا ہے ،تونوکرسمجھ کر ہی دو وقت کی روٹی

دے دیا کر،۔۔۔،،،۔،۔

یہ اشعار سناتے سناتے ان کی نظر اللہ کے رسولﷺ کے چہرہِ مبارک پر پڑی تو دیکھا کہ

آپﷺ اتنا روئے کہ آپ کی داڑھی مبارک تر ہوگئی،۔،،۔
،
آپﷺ جلال میں اپنی جگہ سے اٹھےاور بیٹے کا گریبان پکڑکرفرمایا کہ،۔،۔
،
انت ومالک لا بیک،۔

تو اور تیرا سب کچھ تیرے باپ کا ہے،۔،،،۔،۔

تو اور تیرا سب کچھ تیرے باپ کا ہے،۔،،،۔،۔

تو اور تیرا سب کچھ تیرے باپ کا ہے،۔،،،۔،۔

  (تفسیرِقرطبی)
اللہ پاک سے دعا ہے،،،۔

٭٭رَبِّ ارحمھما کما ربیانی صغیرا٭٭   


  نام نہاد جہنم کا دروازہ (Door to the Hell)
دروازہ جہنم ترکمانستان کے صوبہ آخال کے گاؤں دروازہ میں قدرتی گیس کا ایک میدان ہے جو کہ 1971 میں ٹوٹ کر ایک بڑے گڑھے میں تبدیل ہو گیا بعد میں ماہرین ارضیات نے اس جگہ کو آگ کے حوالے کر دیا تاکہ اس سے نکلنے والی زہریلی گیسوں کے اثر سے بچا جاسکے اس گڑھے کا قطر 69 میٹر اور گہرائی تیس میٹر کے لگ بھگ ہے۔ یہ علاقہ ایک سیاحتی مقام میں تبدیل ہوچکا ہے اور پچھلے پانچ سالوں میں پچاس ہزار کے قریب سیاح یہاں کا دورہ کر چکے ہیں نیز وہ آس پاس کے ویران صحراء میں کیمپنگ بھی کر تے ہیں۔

ترکمانستان کے ”کاراکم“ صحرا میں آتش فشاں کا دہانہ ہے ۔ یہ جگہ دارالحکومت سے تقریباً 270 کلومیٹر دور ہے۔ جس میں گزشتہ 40 سال سے مسلسل آگ جل رہی ہے۔ اس آگ کے باعث یہ جگہ نہایت خوفناک لیکن دلچسپ منظر پیش کرتی ہے۔ مقامی افراد اسے ”جہنم کا دروازہ“ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ ترکمانستان کی حکومت نے اب اس جگہ کو سیاحوں کے لئے کھول دیا ہے۔ ترکمانستان میں سالانہ صرف 10,000 سیاح آتے ہیں اور توقع کی جارہی ہے کہ اس دلکش جگہ کو دیکھنے کے لئے خاصی بڑی تعداد میں لوگ مختلف ممالک سے آئیں گے۔

یہ آگ دراصل زیر زمین سے نکلنے والی گیس کے باعث لگی ہوئی ہے۔ 1971ءمیں گیس کے اس کنوئیں میں ”ڈرلنگ“ کے دوران ایک حادثہ ہوگیا تھا، اس وقت ترکمانستان سویت یونین کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ حادثے کے بعد ماہرین نے اس جگہ آگ لگادی کہ زہریلی گیس سے نزدیکی آبادی کے متاثر ہونے کا خدشہ تھا۔ خیال یہ تھا کہ آگ جلد ہی بجھ جائے گی لیکن قدرت کا کرنا یہ ہواکہ آگ اب تک لگی ہوئی ہے۔ 4 سال قبل حکومت نے اس 20 میٹر گہرے اور 60 میٹر چوڑے گڑھے کو مٹی سے بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن اس پر عمل نہ ہوسکا لہٰذا اب اسے سیاحوں کے لئے کھول دیا گیا ہے۔

نیچے قارئین کی دلچسپی کیلئے یوٹیوب سے کچھ ویڈیوز لی گئی۔ انہیں بھی ضرور دیکھیں۔

پوسٹ باشکریہ
www.guldasta.pk

یک طوطا اور مینا کا گزر ایک ویرانے سے ہوا، وہ دم لینے کے لئے ایک ٹنڈ منڈ درخت پر بیٹھ گئے- طوطے نے مینا سے کہا “اس علاقے کی ویرانی دیکھ کر لگتا ہے کہ الوؤں نے یہاں بسیرا کیا ہو گا” ساتھ والی شاخ پر ایک الو بیٹھا تھا اس نے یہ سن کر اڈاری ماری اور ان کے برابر میں آ کر بیٹھ گیا- علیک سلیک کے بعد الو نے طوطا اور مینا کو مخاطب کیا اور کہا “آپ میرے علاقے میں آئے ہیں، میں ممنون ہوں گا اگر آپ آج رات کا کھانا میرے غریب کھانے پر تناول فرمائیں”- اس جوڑے نے الو کی دعوت قبول کر لی- رات کا کھانا کھانے اور پھر آرام کرنے کے بعد جب وہ صبح واپس نکلنے لگے تو الو نے مینا کا ہاتھ پکڑ لیا اور طوطے کو مخاطب کر کے کہا ” اسے کہاں لے کر جا رہے ہو، یہ میری بیوی ہے” یہ سن کر طوطا پریشان ہو گیا اور بولا ” یہ تمہاری بیوی کیسے ہو سکتی ہے، یہ مینا ہے اور تم الو ہو، تم زیادتی کر رہے ہو” اس پر الو اپنے ایک وزیر با تدبیر کی طرح ٹھنڈے لہجے میں بولا “ہمیں جھگڑنے کی ضرورت نہیں، عدالتیں کھل گئی ہوں گی- ہم وہاں چلتے ہیں، وہ جو فیصلہ کریں گی، ہمیں منظور ہوگا” طوطے کو مجبوراً اس کے ساتھ جانا پڑا- جج نے دونوں طرف کے دلائل بہت تفصیل سے سنے اور آخر میں فیصلہ دیا کہ مینا طوطے کی نہیں الو کی بیوی ہے- یہ سن کر طوطا روتا ہوا ایک طرف کو چل دیا- ابھی وہ تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ الو نے اسے آواز دی “تنہا کہاں جا رہے ہو، اپنی بیوی تو لیتے جاؤ”- طوطے نے روتے ہوئے کہا “یہ میری بیوی کہاں ہے، عدالت کے فیصلے کے مطابق اب یہ تمہاری بیوی ہے” اس پر الو نے شفقت سے طوطے کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا “یہ میری نہیں، تمہاری ہی بیوی ہے، میں تو صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ بستیاں الوؤں کی وجہ سے ویران نہیں ہوتیں بلکہ اس وقت ویران ہوتی ہیں جب وہاں سے انصاف اٹھ جاتا ہے”

(اردو ایکسپریس نیوزڈیسک)

سوشل میڈیا ویب سائٹ سنیپ چیٹ ایک ایسا چشمہ متعارف کروانے جا رہی ہے  جس سے آپ دس سیکنڈ تک کی ویڈیو ریکارڈ کر سکتے ہیں یہ چشمہ خودکار طریقے سے ویڈیو سنیپ چیٹ ویب سائٹ پر اپلوڈ کردیتا ہے ابتدائی ورژن میں صرف دس سیکنڈ کی ویڈیو ریکارڈ ہوتی ہے جب کہ آئندہ ورژن میں یہ ویڈیو 30 سیکنڈ یا اس سے بھی زیادہ وقت کی ریکارڈ کی جا سکے گی۔
 ویڈیو ریکارڈ کرنے کے لیے کیمرہ لینز کے قریب  چھوٹا سا بٹن دیاگیا ہے جسے دبانے سے  ریکارڈنگ شروع ہو جاتی ہے۔ 
بلیو ٹوتھ اور وائی فائی کے ذریعے کیمرے کو موبائل ڈیوائس یا لیپ ٹاپ سے جوڑا جا سکتا ہے۔ 
اس کیمرے کا امیج بلکل ایسے ہی ہے جیسے ہماری آنکھیں دیکھتی ہیں۔
ویب سائٹ انتظامیہ کے مطابق کیمرہ گلاسز رواں سال کے  آخر تک فروخت کے لیے پیش کر دیے جائیں گے
جبکہ گلاسز کی قیمت تقریباً 13000 پاکستانی روپے تک ہو گی
۔

about me

{facebook#http://facebook.com/urduexpresspk} {twitter#https://twitter.com/rmkhokhar} {google-plus#https://plus.google.com/u/0/108269021046524224481} {youtube#https://www.youtube.com/channel/UCLuxDRursLIjjMlJsRqLIEg} {instagram#https://www.instagram.com/rajamujahidkhokhar}

Contact Form

Name

Email *

Message *

Powered by Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget